آخر آج کی عورت چاہتی کیا ہے؟


آخر آج کی عورت چاہتی کیا ہے؟

’’ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘‘
بالکل اسی طر ح سے
ایک کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ذرا سوچیے!
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ خواتین جب اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں تو وہ مردوں کے حقوق میں سے کچھ چھیننا چاہتی ہیں۔
خواتین ایسا ہرگز ہرگز نہیں چاہتیں۔

عورت چاہتی ہے کہ فقط وہ غصب شدہ حقوق اسے لوٹا دیے جائیں۔ وہ اختیار جو انہیں مذہب اور ملک کا آئین دونوں دیتے ہیں۔

خواتین برابری کا لفظ استعمال کرتی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مردوں سے جسمانی برابری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ برابر مواقع
یعنی کہ ایک بیٹی کو پیدائش سے پہلے ہی مار نہ دیا جائے، اس کے پیدا ہونے پر بھی اتنی ہی خوشی منائی جائےجو کہ بیٹے کے پیدا ہونے پر۔
·      بیٹی کو بھی اپنی مرضی کی تعلیم، چاہے وہ ملک میں ہو یا ملک سےباہر، حاصل کرنے کا حق ہو، پسند کی شادی کرنے کا اختیار ہو، جائیداد میں ترکہ ملے۔
·      شادی کے بعد بھی اپنی منشا سے کام کرنے یا نہ کرنے کی آزادی ہو۔
·      خاوند کے ساتھ فیصلوں میں شراکت داری ہو۔
·      ایک خاتون بچہ پیدا کرنے کے لیے ذہنی یا جسمانی طور پر تیار ہے یا  نہیں اس فیصلے پر مکمل طور پر اس عورت کا ہی اختیار ہو۔
·      اولاد پیدا کرنے کے بعد جب وہ کام پر واپس آئے تو اس کے لیے ایسا ماحول ہو کہ وہ دوبارہ اپنے کریئر کو وہیں سے آگے بڑھا سکے۔
·      ہماری ناولوں اور افسانوں میں عورت کو فرشتہ یا شیطان بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
·      ٹی وی ڈراموں میں ہمیشہ ایک عورت کو مار کھاتی، روتی پیٹی اور تشدد برداشت کرتے ہی کیوں دکھا یا جاتا ہے ؟
·      کیوں میڈیا پر یہ نہیں دکھایا جاتا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت کس طرح معاشرے میں اپنا کردار ادا کررہی ہے ۔
·      عورت کا گھروں تک ہی محدود کردیا ہے، جب کہ مردوں کو گھروں سے باہر کام کرتے دکھایا جاتا ہے۔
·      اگر عورت کو باہر کام کرتے دکھایا بھی جاتا ہے تو وہ عموماً خدمات والے شعبے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر اور استاد۔
·      عورتوں کو پائلٹ، انجینئرز، سائنسداں یا بزنس وومن کے روپ میں کیوں نہیں دکھا یا جاتا۔
·      خاص طور سے جہاں قبائلی سرداری اور بادشاہی نظام رائج ہے وہاں انسانوں کو محکوم بنانے کے لئے عورت آسان ٹارگٹ ہے اور اسے کمتر مخلوق سے بھی پست ایک شے سمجھا جاتاہے۔ جسے بیچنا خریدنا، تحفے میں دینا بلکہ قتل تک کردینا جائز ہے۔ چناں چہ ونی، کارو کاری اور غیرت کے نام پر دیگر قتل جیسی ظالمانہ رسوم سماج کا حصہ ہیں۔
·      تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہم یہ فرق نہیں کر پاتے کہ ہم جو اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ سلوک کررہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط۔
·      جب عورتیں گھروں سے نکلتی ہیں تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہیے وہ بسوں میں سفر کررہی ہوں یا پیدل چل رہی ہوں۔
·      کیا ہمارے مذہب میں عورت کو مارنے کی، اُس پر تشدد کرنے کی، غیرت کے نام پر قتل کرنے کی اور ہراساں کرنے کی اجازت ہے؟
·      ہم ہر چیز کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں عورت کو یہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
·      عورت کا لباس اہم مسئلہ بن جاتا ہے۔
·      بہو ڈاکٹر چاہیے لیکن وہ نوکری نہیں کرے گی۔ اپنے پرو فیشن کو جاری نہیں رکھےگی۔ لیکن اپنی بیوی، بیٹی یا بہو کے علاج کے لیے لیڈی ڈاکٹر کو ہی ترجیح دی جاتی ہے ۔
·      تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرد یا عورت ہونا ضروری نہیں ہے ،بلکہ اس کے لیے روشن ذہنوں کا ہونا ضروری ہے ۔
·      تعلیم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں کے لیے اہم ہے وہ معاشرہ بہت تیزی سے ترقی کرتا ہے ۔
·      لوگوں کا بس ایک ہی رونا ہے کہ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں، یہ رسم نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ وہیں کھڑے ہیں۔ جہاں صدیوں پہلے تھے، دراصل وہ اپنا مائنڈ سیٹ بدل ہی نہیں چاہتے۔
·      ان فرسودہ خیالات میں ایک عورت پس ماندہ زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہے اور آنے والی نسلیں بھی اس کا شکار ہو جاتی ہیں ۔
·      تعلیمی سلسلے میں عورت تو پیچھے ہے ہی، مرد بھی اس میں پیچھے رہ جاتا ہے، کیوں کہ وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ جو سلوک اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ کر رہا ہے نہ مذہب اس میں رکاوٹ ہے اور نہ کوئی اور، یہ اس کی اپنی کی ازخود پابندیاں ہیں، جو عورت کو معاشرے میں اپنا مقام نہیں بنانے دیتیں۔

پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہے لیکن ہمارے معاشرے کی سوچ میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔

Share on WhatsApp


Comments

Popular posts from this blog

وطن جي حب

اسان جو وطن (پيارو پاڪستان)

محنت ۾ عظمت