پڑھنا منع ہے ۔۔۔۔
’’نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے‘‘۔
علامہ اقبالؒ
یاد رکھو!
دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ ہیں۔
1.
اول
وہ جو دنیا کا نظام بناتے اور چلاتے ہیں۔
2.
دوم
وہ جو اس نظام کے غلام ہوتے ہیں، غلام رہتے ہیں اور چاہیں بھی تو غلامی کی زنجیریں نہیں
کاٹ سکتے۔
’’میں حیران ہوں کہ انسانوں کی موجودگی میں
انسان زندہ کیسے ہے۔‘‘
حسن نثار
اپنی اصلاح
کوئی بھی شخص اپنی اصلاح نہیں کر سکتا اگر وہ
اپنے غلط کاموں کی ذمہ داری قبول نہ کرے۔ اگر وہ غلط کام کرنے کے بعد پکڑا جائے
اور پھر یہ کہے کہ وہ اصل میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا تو وہ اپنی اصلاح کبھی بھی
نہیں کر سکے گا۔
ٹانکا
وقت پر لگایا جانے والا ایک ٹانکا بعد میں لگائے
جانے والے کئی ٹانکوں سے بچا لیتا ہے۔
بدصورتی
ہم بدصورتی کو تو انتہائوں کی انتہا تک پہنچا
دیتے ہیں لیکن خوبصورتی کے ساتھ ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔
خود کا دشمن
ہم بھی کیا لوگ ہیں جنہیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں،
اپنے لئے خود ہی کافی ہیں۔
"خوف اور بے یقینی"
خوف اور بے یقینی انسان کو تہذیب یافتہ سے غیرتہذیب
یافتہ بنا دیتی ہے، امیری و غریبی کا فرق مٹادیتی ہے۔
خوف، مایوسی، نا امیدی، ڈپریشن سے انسان کی قوتِ
مدافعت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ کلچر
کسی بھی ملک میں ہر قسم کی گندگی، کمینگی، خباثت،
بدصورتی، بےقانونی، بےترتیبی، بدسلیقگی وغیرہ کے پیچھے یہی ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ کلچر
ہوتا ہے جسے جنم دینے و الی اشرافیہ ہوتی ہے جسے ایک نہ ایک دن اسی کلچر کے ہاتھوں
تباہ وبرباد، ذلیل و رسوا و پسپا ہونا ہوتا ہے۔
ووٹ کی قدر و قیمت
جنہیں ’’زندگی موت‘‘ کی تمیز نہیں۔
قانون لاقانونیت کا فرق معلوم نہیں۔
ان لوگوں کو ووٹ کی قدر و قیمت کا کتنا احساس یا
علم ہوگا؟
ان لوگوں کے لئے ووٹ کی قیمت قیمے والا نان یا
بریانی کی ایک پلیٹ کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟
ووٹ آزاد لوگ دیا کرتے ہیں۔ دیدہ نادیدہ زنجیروں
میں جکڑے ہوئے غلام ابنِ غلام نہیں۔
جن لوگوں کے سر پہ چھت اور پیر کے نیچے زمین اپنی
نہ ہو، اس کی رائے (ووٹ) اپنی کیسے ہو سکتی ہے۔
اگر میں دنیا کا ڈکٹیٹر بن جائوں تو ایسا قانون
بنادوں کہ وہ تمام لوگ جن کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے کم ہو، انہیں موت کے گھاٹ اتار
دیا جائے۔
برناڈ شا
’’چھت گرنے لگے تو بھاگ جاؤ اور آسمان گرنے لگے
تو رُک جاؤ۔‘‘
کیونکہ آسمان سب کے سروں پر ہے، اس سے ہم بھاگ
نہیں سکتے، رکنا ہی ہمارے مفاد میں ہوتا ہے اور پھر آسمان والے کو پکارنا اور رحم
مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
واصف علی واصفؒ
غریبوں کا خون چوسنے والے
مجھے تو غریبوں کا خون چوسنے والے لوگوں کی نسبت
آدم خور وحشیوں اور درندوں میں ہزار گنا زیادہ ’’انسانیت‘‘ دکھائی دیتی ہے ۔۔۔
کیونکہ
وہ تو ایک ہی بار انسان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے
ہیں جبکہ یہ لوگ زندگی بھر غریبوں کا خون پیتے رہتے ہیں اور ان کی نسلوں کی نسلیں تباہ
کر ڈالتے ہیں اور کمال یہ کہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہونے دیتے۔
لوئس بلاک
اگر کسی رات اچانک ایسی وباء پھیلے کہ اس کے
سبب دنیا بھر کے تمام بادشاہ، نواب، راجے، مہاراجے، رائے، رئیس، جاگیردار، سیٹھ، ساہوکار،
امرا، سرمایہ دار وغیرہ مر جائیں تو نظامِ عالم میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا
۔۔۔
لیکن!
اگر کسی اور وباء سے دنیا بھر کے کسان، مزدور،
جولاہے، چمار، بڑھئی، دھوبی، موچی، نائی، درزی، معمار، بھنگی، گوالے، گڈریئے، کوچوان،
قلی، گاڑی بان موت کے گھاٹ اتر جائیں تو یہ دنیا کسی کام کی نہ رہے اور بہت بڑا دوزخ
بن جائے۔
ٹالٹائی
پہاڑوں کو ہلانے سے پہلے پتھروں سے سیکھو۔
سورج بلب کی طرح یکدم روشن نہیں ہو جاتا
۔
خون اور پسینے میں صرف رنگ کا فرق ہے۔
جہاں محبت، محنت اور مہارت یک جا ہو جائے
وہاں معجزے جنم لیتے ہیں۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈالو نہ ڈالو لیکن بانہوں
میں بانہیں ڈالے بغیر ہم کہیں نہ پہنچ پائیں گے۔
بھروسے کے قابل صرف وہی ہے جو اپنے خالق
پر بھروسہ کرتا ہے۔
خدا کی طرف دیکھنے والے کبھی کسی اور طرف
دیکھ ہی نہیں سکتے۔
عورتیں عموماًمردوں جتنی کامیاب نہیں ہوتیں
کیونکہ انہیں مشورہ دینے کیلئے ان کی بیویاں نہیں ہوتیں۔
Comments
Post a Comment