بھنبھور - دیبل بندر
بھنبھور
(دیبل بندر)
· بھنبھور شہر دیبل بندر کے نام سے
آباد تھا۔
· بھنبھور سندھ کے شہر کراچی سے 60 کلومیٹر
دور واقع ہے۔
· بھنبھور شہر 1 صدی سے 13 صدی تک اپنے عروج پر
رہا۔
· محمد بن قاسم نے بھنبھور شہر کو سب سے پہلے فتح کیا۔
· بھنبھور کو برصغیر کا باب الاسلام بھی کہا
جاتا ہے۔
·
بھنبھور شہر میں ملنے والی جامع
مسجد کے آثار جسے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
· بھنبھور شہر ملکی وغیر ملکی ماہرین آثارِ قدیمہ
کی توجہ کامرکز بنا ہوا ہے۔
· سسی کے شہر بھنبھور کی ایک شناخت رومانوی
داستان سسی پنہوں بھی ہے۔
· بھنبھور شہر کی آرکیالاجیکل سائٹ کی ابتدائی
کھدائی کا کام 1928ع میں رمیش چندرا مجمدار نے شروع کروایا۔
· 1951ع میں بھنبھور شہر کی دوبارہ کھدائی کی
گئی۔
· پاک اٹالین اور فرینچ جوانٹ آرکیولوجیکل مشن
نے مشترکہ طور پر اس سائٹ کی پھر سےکھدائی کا کام اپنے ذمے لیا جو 2015 تک جاری
رہا۔
· 2017 سے اب تک اٹالین آرکیولاجیکل مشن اور
محکمہ ثقافت و نودرات سندھ مشترکہ طور پر بھنبھور کی کھدائی کا کام جاری رکھے ہوئے
ہیں۔
· اب تک بھنبھور شہر کے تین مختلف ادوار کے
نشانات رونما ہو چکے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ:
بھنبھور کی کھدائی کے دوراں نوادرات کے جو
نمونے پائے گئے ہیں ان میں سکے موتیوں کی مالائیں مٹی کے برتن اور ہاتھی کے دانت
سے بنی بہت ساری قیمتی چیزیں شامل ہیں۔
اطالوی محقق کے مطابق:
بھنبھور میں جو برتن کی باقیات ملی ہیں بالکل
ویسے ہی چند سال پہلے انڈونیشیا کے ساحل سے بحری جہاز کے ڈھانچے سے ملی تھیں جس سے
یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ لوگ برتنوں کا کام کرتے تھے اور کسی زمانے میں یہ بڑا تجارتی
مرکز تھا۔
منظور کناسرو (محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات)
کے مطابق:
· بھنبھور کی سائٹ کو ثقافتی ورثے میں شامل
کروانے کے لئے کوشاں ہیں۔
· حال ہی میں اطالوی ریسرچر کو کھدائی کے دوران
بڑی تعداد میں ہاتھی کے دانتوں سے بنی باقیات کے ملنے سے عالمی ورثے میں شمولیت کے
امکان روشن ہو گئے ہیں۔
· سیاحوں کی رہائش اور تحقیق کیلئے آنے والوں
کیلئے میوزیم قائم کیا گیا ہے۔
· میوزیم میں کھدائی کے دوران ملنے والے
نوادرات رکھے گئے ہیں۔
· یہاں قیام کے لیے کمرے مناسب کرائے پر دستیاب
ہیں۔
· گھارو کریک میں کشتیاں موجود ہیں۔
· سیاحوں کی سہولت کے لیے پتھروں سے واضح کیے
گئے مختلف احاطوں مثلاً مکانات، گلیاں، مسجد، مدرسہ، مندر، کنواں، بازار، صنعتی
علاقہ وغیرہ کی نشان دہی جلی الفاظ میں کی گئی ہے۔
· سب سے زیادہ اہتمام جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد
کے آثار کے لیے کیا گیا ہے۔
· نوادرات کے شوقین کے لیے ٹھیکریاں بکھری ہوئی
ہیں جو آنیوالوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔
Comments
Post a Comment