سویڈن میں 20 سال سے رہائش پذیر مشرقی
یورپ کے ایک باشندے سے میں نے ایک دن کہا:
”سویڈن کی زندگی بھی عجیب ہے! شادی اور طلاق، دوستی اور جدائی تو یہاں بس ایسی ہی ہے جیسے کوئی چھوٹا بچہ نیکر تبدیل کرے۔“
اور پھر میں نے اسے ہماری آٹھ منزلہ
عمارت کے ایک فلیٹ میں رہنے والی ایک معمر خاتون، جس کا نام یوزے ہے کا قصہ سنایا۔
”ہماری
عمارت کی چوتھی منزل پر رہنے والی خاتون یوزے صاحبہ تقریباً پینسٹھ یا ستر سال کی
ہوں گی۔“
”یہاں
یہ عمر تو کچھ بھی نہیں اور اسے بڑھاپے میں تو شمار کیا ہی نہیں جاتا۔“
اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”آپ
نے بالکل صحیح کہا،“ میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ”یہاں دو سال رہ کر مجھے
اس بات کا احساس ہے اور روز دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کی اسّی سال کی بوڑھی خواتین بھی
سولہ سنگھار کرکے نکلتی ہیں جن کے چہروں پر ہر وقت تازہ اور اعلیٰ قسم کا میک اپ
ہوتا ہے لیکن میں آپ کو میڈم یوزے کی ایک اور تعجب خیز بات بتاتا ہوں۔“
”مجھے
لگتا ہے آپ نے اسے کسی کلب یا ڈسکو میں ڈانس کرتے ہوئے دیکھا ہے؟“
اس یورپی باشندے نے کہا جو سامنے والی
بلڈنگ میں رہتا ہے اور اکثر بس اسٹاپ پر ملتا ہے۔
”ہاں
بس کچھ اس قسم کی ہی بات ہے بلکہ اس میں کچھ میری سادگی کا بھی عمل دخل ہے، جس پر
میں خود بھی اپنے آپ پر ہنستا رہتا ہوں۔
میں جب سویڈن میں آیا اور مذکورہ عمارت
میں رہائش اختیار کی تو یوزے سے میری پہلے دن ہی لفٹ میں اور پھر بس اسٹاپ پر
ملاقات ہوگئی۔ ہم لوگ ساتویں منزل پر رہتے تھے اور یہ چوتھی منزل کے ایک فلیٹ میں۔
ہمارے آنے سے ایک مہینہ قبل اس کے میاں کا انتقال ہو چکا تھا اس نے بڑی عمر میں
شادی کی تھی اور اس کا میاں اس سے بھی پندرہ برس بڑا تھا۔
یوزے سے روزانہ میری ملاقات اکثر بس
میں، لفٹ میں یا قریبی دکان، ”کانسوم“ میں ہوجاتی تھی۔ شکل سے غمگین لگتی تھی لیکن
میک اپ اور چمکتے دھمکتے کپڑوں میں ایسے لگتی تھی جیسے لندن کے کسی تھیٹر میں کام
کرکے آ رہی ہو۔
میرا ایک ایرانی پڑوسی تو یوزے کو ہر
وقت بنا ٹھنا دیکھ کر کہتا تھا کہ ”یہ عورت تو ملکہ ایلزبتھ کی ماں لگتی ہے۔ اسے
ان فلیٹوں میں رہنے کی بجائے بکنگھم پیلس میں رہنا چاہیے۔“
یوزے کبھی کبھی پائپ پیتے ہوئے اس رعب
سے چلتی تھی تو مجھے اور میرے گھر والوں کو ہمارا ایک سندھی قلمکار اور دانشور
سراج میمن یاد آتا تھا لیکن ہمارے دوسرے پرتگالی پڑوسی کو (شاید یوزے کے ناز نخروں
کو دھیان میں رکھ کر) اطالوی فلمی اداکارہ صوفیہ لورین یاد آتی تھی۔
ہم یوزے کے ساتھ اور یوزے ہم سے بات
کرنے کیلئے بے چین رہتی تھی لیکن زبان مسئلہ بن جاتی تھی کیونکہ یوزے کی مادری
زبان فرانسیسی تھی۔ شادی سے پہلے جرمن سیکھی تھی اور یہاں رہنے کے بعد سویڈش بولنے
لگی اور یہ تینوں زبانیں ہمیں نہیں آتی تھیں۔ وہ کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی ضرور
جانتی تھی بہرحال کچھ اشاروں میں کچھ اس ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اور کچھ ڈکشنری کی
مدد سے یوزے مجھے اور میری بیوی کو اپنے قصے سناتی رہتی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یوزے نے فرانس سے
سویڈن آکر یہاں رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کا میاں جس سے اس کی دس سال پہلے شادی
ہوئی تھی ایک امریکی صحافی تھا۔ یوزے نے اس کی کئی تصاویر جو اس نے اپنے البم اور
فلیٹ کی دیواروں پر سجا رکھی تھی ہمیں دکھائیں۔ اس کے علاوہ اس نے ہمیں اپنے میاں
کی طرف سے اس کی سالگرہ پر دیئے گئے تحفے اور ٹائم اور لائف میگزین کے وہ پرانے
پرچے دکھائے جن میں اس کے میاں کے مضامین شائع ہوئے تھے۔ کچھ زبان سے اور کچھ
اشاروں سے ہمارے سامنے اپنے غم کا اظہار کرتی تھی کہ وہ تنہائی میں اپنے پیارے
شوہر کا سوچ سوچ کر آنسو بہاتی رہتی ہے۔
کسی بھی چیز میں اس کا دل نہیں لگتا۔ دو
دو دن گزر جاتے ہیں لیکن بھوک نہیں لگتی۔ زبردستی دو چار نوالے زہر مار کرتی ہوں
ورنہ پورا دن شراب پی کر غم غلط کرتی رہتی ہوں۔ نیند بھی صحیح طرح نہیں آتی اور
اگر آتی ہے تو ہڑ بڑا کر اٹھ جاتی ہوں۔ کیا کروں ہر وقت اور ہر چیز سے مجھے اپنے
میاں کی یاد ستاتی ہے۔ شوہر کے بغیر یہ چیزوں سے بھرا گھر کاٹنے کا دوڑتا ہے۔“
یوزے کی یہ دکھ بھری باتیں سن کر مجھے
ایسا لگا کہ یہ خاتون اپنے شوہر کی موت کے صدمے کے باعث اب مری کہ اب۔ پھر میں یہ بھی
دعا کرتا تھا کہ اپنے میاں کے غم میں اگر اس کی اچانک سانس نکلنی ہو تو لفٹ، بس
اسٹاپ یا اپنے گھر میں اس وقت نہ نکلے جس وقت ہم اس کے ساتھ ہوں کیونکہ ہو سکتا ہے
مقامی لوگ یہی سمجھیں کہ اس بڑھیا کو ہم نے مارا ہے۔ میڈم یوزے کو میاں کی یاد میں
اس قدر غمزدہ دیکھ کر مجھے کئی بار خیال آتا کہ اسے تسلی دی جائے لیکن ایک ایک
جملہ بنا کر یوزے کو سمجھانا تیشے سے نہر کھودنے کے برابر تھا اور دوسری بات یہ کہ
یہ ضروری نہیں کہ مغرب کی اس دنیا میں مشرق کے یہ ڈائیلاگ کارگر بھی ہوں گے۔
”بس جی قسمت میں یہ لکھا تھا۔ تمہارے
میاں کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اسے جنت میں جگہ نصیب ہو اور آپ کو اللہ تعالیٰ صبر
جمیل عطا فرمائے۔“ وغیرہ یا اس کی بڑی عمر کا سوچ کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ
زندگی کے باقی دن اللہ اللہ کرو تاکہ جلد ہی تم جنت میں اپنے میاں سے جا ملو۔
ایک دفعہ یوزے نے اپنے متوفی میاں کا جب
ذکر چھیڑا تو میں کہنے والا تھا کہ آپ کے میاں کے مرنے سے بہتر تو یہ تھا کہ اللہ
تعالیٰ تمہیں اس کے ہاتھوں میں موت دے دیتا اس سے کم از کم زندگی کے آخری دنوں میں
اکیلے دکھ تو کاٹنے نہ پڑتے۔ لیکن اچھا ہوا میں یہ جملہ زبان پر نہ لایا۔
ہمارے ملک میں پہلی بات یہ کہ ستر سال
کی عورت بڑی مشکل سے نظر آئے گی اگر ہوگی بھی تو اسے خود ہی احساس ہوگا کہ وہ
زندگی کے آخری دنوں میں ہے اور وہ غریب ہر ایک کو کہتی پھرے گی کہ قبر میں پاﺅں
لٹکائے بیٹھی ہوں۔ لیکن یہاں یورپ میں خصوصاً ان اسکنڈ نیوین ممالک میں کسی بڑھیا
کے لئے ستر سال واقعی بڑی عمر نہیں ہے۔
اس دن میرے دلاسہ دینے سے قبل ہی وہ بول
پڑی ”غلطی کی، اس شوہر سے تو فلاں سے شادی کرلیتی تو اچھا تھا۔ ابھی تک ہٹا کٹا
پھر رہا ہے۔ ابھی تک جی رہا ہے اور اپنی بیوی کو بھی خوب عیش کراتا ہے لیکن ان سب
باتوں کے باوجود میرے میاں جیسا سچا عاشق مجھے نہیں ملے گا۔ وہ تو بس مجھ پر فدا
تھا۔“
میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہتا
تھا اور شوہر کے لئے اس کی سچی محبت کی تعریف کرتا تھا۔ ”ہم مشرقی لوگ“ میں نے دل
ہی دل میں سوچا ”صرف اپنے آپ کو ہی سچا عاشق سمجھتے ہیں۔
ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں جیسے
عاشقوں کا وجود صرف مشرق میں ہی سمجھتے ہیں لیکن قدرت نے یورپ کے ان برفانی ملکوں
میں بھی بڑے بڑے عاشق پیدا کئے ہیں۔ سچے دل والی کئی موملیں اور ہیریں مغرب میں
بھی بستی ہیں۔“
یوزے کی تنہائی کا ایک سبب یہ بھی تھا
کہ اس کی اولاد نہیں تھی ورنہ وہ اپنے بچوں اور پوتوں نواسوں کے شور شرابے اور
مسائل میں مصروف رہتی۔ اس بات کا میں نے ایک دن ذکر کیا تو میڈم یوزے نے اثبات میں
سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”ہاں بالکل صحیح کہتے ہو۔ بچہ نہ اس شوہر سے ہوا نہ پہلے والے
سے۔“
”کیا
اس سے قبل بھی تمہاری کسی سے شادی ہوئی تھی۔“ نہ جانے کیوں یہ سوال کرتے ہوئے مجھے
ایسا محسوس ہوا جیسے تھانے پر کسی چور یا ڈاکو سے پوچھا جا رہا ہو، کہ کیا اس سے
پہلے بھی تم نے ڈاکے ڈالے ہیں۔
”جی
ہاں“ یوزے نے مجھے چونکاتے ہوئے کہا۔ ”لیکن بہت پہلے“
”پھر
وہ کب یہ جہاں چھوڑ گیا؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں
وہ کمبخت مرا نہیں۔ اسے میں نے چھوڑ دیا۔“ یوزے نے انکشاف کرتے ہوئے کہا۔ ”وہ آج
بھی حیات ہے اور سمندر کے اس پار کوپن ہیگن (ڈینمارک) میں رہتا ہے۔ کبھی کبھی
کرسمس یا نیا سال شروع ہونے پر فون بھی کرتا ہے۔“ یہ کہہ کر یوزے اپنی کرسی سے
اٹھی اور بحیرہ بالٹک کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ کھڑکی کا پردہ
ہٹا کر وہ سامنے گھورتی رہی جیسے اس کا سابق شوہر سامنے کھڑا ہو۔
میں نے نظریں اٹھا کر کھڑکی سے دیکھا
بحیرہ بالٹک کی بپھری ہوئی موجیں تھیں جن میں چند فیری نما جہاز اور ہوور کرافٹ
ہچکولے کھا رہے تھے اور ان کے پیچھے اس پار ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کی عمارتیں
تھیں جو دھند کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہی تھیں۔
”لو
بھئی یہ بھی خوب رہی۔“ میں نے دل میں سوچا اور اس سے مزید شوہروں کا پوچھا۔
وہ کھڑکی کا پردہ کھینچ کر واپس کرسی پر
آ بیٹھی۔کڑوی کافی کا ایک گھونٹ پی کر بڑی نزاکت سے ٹشو پیپر اٹھا کر اپنے ہونٹ
صاف کرتے ہوئے کہا۔
”میں
نے دو سے زیادہ شادیاں نہیں کیں البتہ ایک بوائے فرینڈ کے ساتھ میں نے کافی لمبا
عرصہ گذارا لیکن اس سے بھی نہ بچہ ہوا نہ شادی رچائی۔ ایک اور بوائے فرینڈ کے ساتھ
تقریباً چھ مہینے کا مختصر وقت گزارا لیکن شادی جیسا بندھن نہ اسے پسند تھا نہ
مجھے۔ یہ دونوں افئیر اس وقت کے ہیں جب میں ٹین ایجر تھی۔“
یوزے کی ایک سوتیلی بہن پیرس میں رہتی
تھی وہ اس کے پاس یہاں سویڈن میں کبھی کبھی گھومنے کے لئے آتی تھی۔ ایک دن یوزے نے
بتایا کہ اس دفعہ وہ اس کے پاس پیرس جا رہی ہے۔
”یہ تو
بہت اچھا کر رہی ہو تمہارا دل بہل جائے گا۔“ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے
کہا۔
بہرحال شوہر کے انتقال کے تقریباً ڈیڑھ
ماہ بعد یہ پہلی دفعہ اپنا شہر مالمو چھوڑ کر ایسٹر کی چھٹیاں منانے کے لئے اپنی
بہن کے پاس پیرس روانہ ہوئی اور دو ڈھائی ہفتے لفٹ میں، بس میں، ٹرینگلیں (شہر کے
مرکزی علاقے) میں وہ نظر نہ آئی۔ بیسویں دین پیرس سے لوٹی تو اس کا ایک ہاتھ اپنی
شولڈر بیگ میں تھا جس میں وہ سفر کا سامان ڈال کر گئی تھی اور دوسرا ہاتھ اس کی
عمر کی لگ بھگ ایک بوڑھے آدمی کی کمر میں تھا۔
پتہ چلا کہ پہلی رات ہی پیرس کے ایک
نائٹ کلب میں اسے یہ رنڈوا مل گیا اور دونوں کی ایک دوسرے سے بن گئی۔ بہن کے گھر
تقریباً ایک ہفتہ بھی مشکل سے رہی اس کے بعد روج اور لپ اسٹک سے سجا اپنا چہرہ اور
میک اپ سے بھرا بیگ لے کر باقی دن اپنے یار کے فلیٹ پر جا گزارے۔ واپسی پر اسے
گھیر گھار کر یہاں مالمولے آئی۔
میاں صاحب سولہ سنگھار کرنے والی اس
بڑھیا سے خوش یا شاید اس ملک سویڈن سے بہت متاثر نظر آنے لگے جو بڑے ادب اور پیار
سے اس بوڑھی حسینہ کو بازو سے پکڑ کر اس ملک کی سخت سردی اور برف باری میں شہر کے
کبھی اس چوراہے پر تو کبھی اس نکڑ پر، کبھی سینما ہال کے باہر تو کبھی برف سے ڈھکے
پارک میں واک کرتے نظر آنے لگے اور یہ ہماری بڑھیا یوزے بھی ایک عدد نیا شوہر حاصل
کرکے بغیر رسی کے مست ہرنی بن گئی۔ اب تو اس کے قدم قدم سے ڈرامہ بازی ٹپکنے لگی۔
بس سے بھی اس وقت تک نیچے نہیں اترتی جب تک اس کا یہ فرانس سے درآمد کرکے لایا گیا
نیا یار پہلے اتر کر اس کی انگلی پکڑ کر نیچے اترنے کا اشارہ نہ کرے۔ لفٹ میں، بس
میں، راستے میں، جہاں ملتی تھی بات ہو یا نہ ہو مسکراتی اور قہقہے لگاتی نظر آتی۔
ویسے تو یوزے ہم ایشیائی لوگوں کو ہر
وقت سمجھاتی رہتی تھی کہ باہر سخت سردی میں منہ کھول کر بات نہیں کیا کرو اور
جمائی آئے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھنا چاہیے اور اب تو ماشاءاللہ خود تو جیسی زلیخا
بی بی بن گئی۔ ناز نخرے، کپڑوں، جوتوں اور سرخی پاﺅڈر میں تو ویسے ہی وہ فلپائن کی
امیلڈا سے کم نہیں تھی اور اب تو نئے شوہر کی لاٹری نکلنے پر اپنے ناخنوں پر بھی
ٹیکنیکلر نیل پالش لگانے لگی اور اس سے ملتا جلتا مفلر اور ٹوپی پہننے لگی۔
اس تبدیلی کو پڑوس والی عمارت میں رہنے
والے اور ہمارے بس اسٹاپ سے بس پکڑنے والے بنگلہ دیش کے کیپٹن حبیب نے بھی محسوس
کیا جو ایک دن بس میں چڑھتے ہی اس نے مجھے اردو میں کہا۔ ”یار تمہاری عمارت والے
بڑھیا سٹھیا گئی ہے۔ اوور کوٹ پہننے کی بجائے ہاتھ میں لیکر پھرتی ہے اسے نمونیا
نہ ہوجائے۔“
”میرے
بھائی! ساٹھ کی تو وہ آج سے دس سال پہلے ہو چکی تھی۔“ میں نے کیپٹن حبیب کو بتایا۔
”بہرحال۔“
اس نے میری بات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ”بڑھیا ہے بڑی چالاک،
شوہر کے روپ میں اس نے ایک عدد نوکر رکھ لیا ہے۔“ (یاد رہے کہ سویڈن وہ ملک ہے
جہاں ذاتی نوکر رکھنا غیر قانونی ہے)
ویسے یوزے نے بھی اپنے اس نئے شوہر /
دوست سے کمال کا برتاﺅ رکھا ہوا تھا۔ یوزے چونکہ ایک عورت تھی اور پوری عمارت میں
رہنے والے تمام افراد سے بڑی عمر کی ہونے کی وجہ سے ہم سب اس کا احترام کرتے تھے۔
عمارت کا دروازہ کھولنے سے لی کر بس میں چڑھنے یا لفٹ منگوانے کے لئے بٹن دبانے تک
کا کام ہم کرتے تھے لیکن اب اس کے یہ سارے کام اس کا فرانسیسی عاشق کرتا تھا بلکہ
کبھی کبھی تو وہ بیچارا ہمارے لئے بھی دروازہ کھول کر کھڑا رہتا تھا اور یہ فرانسیسی
میں اس سے ہماری تعریفیں کرتی رہتی تھی۔
بہرحال میڈم یوزے کا یہ نیا شوہر شروع
شروع میں تو اس پر فدا ہوتا رہا اور یوزے پر اپنی جان تو کیا پیرس اور روم تک قربان
کرنے کے لئے تیار نظر آتا تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کی طبیعت میں چڑ چڑا پن
آتا گیا اور تقریباً دو ہفتے کے بعد وہ اس خاتون سے سخت بیزار نظر آنے لگا۔ اپنی
اس بوڑھی محبوبہ کے لئے عمارت یا لفٹ کا دروازہ کھولنا بھول جاتا تھا یا جان بوجھ
کر پیچھے ہٹ جاتا تھا تاکہ وہ خود جاکر کھولے اور کبھی اسے کھولنا بھی پڑتا تو وہ
اس بیزاری سے کھولتا تھا جیسے دروازے اور اس کے بازو کی Mechanism کے کل پرزے گھس گئے ہوں اور دونوں کو (یعنی دروازے اور اس کے
فرانسیسی عاشق نامدار کو) گریز اور تیل کی ضرورت ہے۔
مزید ایک ہفتے بعد ان میں اور بھی دوری
آگئی۔ دن کو جب یوزے کی سیر کا وقت ہوتا تھا اس وقت یہ سردرد کا بہانہ بنا کر سوتا
رہتا تھا اور شام کو جب یوزے زیادہ پی کر مدہوش ہوجاتی تھی تو یہ اسے اکیلا چھوڑ
کر مالمو کی گلیوں میں ٹہلنے نکل پڑتا تھا۔ ایک رات میں جہاز کی ڈیوٹی کر کے دیر
سے واپس آیا تو یوزے کے دلبر جاناں کو عمارت کا مین گیٹ کھولتے دیکھا۔ نشے میں دھت
ہونے کی وجہ سے اس کو صحیح چابی نہیں مل رہی تھی۔ میں نے اپنی چابی سے دروازہ کھول
کے لفٹ بلانے کے لئے بٹن دبایا۔ اس نے لفٹ کا تھوڑی دیر انتظار کیا پھر اچانک اسے
کوئی خیال آیا اور مجھ سے جرمنی جانے والی ٹرین کا شیڈول پوچھا۔
”خیریت؟“
میں نے اسے وقت بتاتے ہوئے دریافت کیا۔
”میں وہاں سے پیرس جانا چاہتا ہوں۔ آج ہی۔“ اس
نے جواب دیا۔ اتنے میں لفٹ آگئی لیکن وہ لفٹ میں آنے کی بجائے مین گیٹ کھول کر
باہر چلا گیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے اس نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ وہ زندگی کے مزید
دن اس بور بڑھیا کی قید میں نہیں گذارے گا۔
اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد فرانس
سے درآمد کیا ہوا یہ عاشق مالمو کی گلیوں میں پھر نظر نہیں آیا۔ ہماری عمارت والی
بڑھیا (یوزے) مستقل تین چار دن باہر نہ نکلی۔ زیادہ خوشی یا زیادہ غم کے موقع پر یہاں
کے لوگ شراب پی کر پڑے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ان بوڑھے اور اکیلے رہنے والوں کا خدشہ
ہوتا ہے کہ کہیں ان کا انتقال تو نہیں ہوگیا۔
بہرحال اس صورت میں مرجانے والے کے
کمرے سے بدبو اٹھتی ہے یا اس کے پاس اگر کتا ہے تو وہ روٹین پوری نہ ہونے پر (اسے
کھانا نہ ملنے اور ٹوائلٹ کے لئے نہ لے جانے پر) بھونکنا شروع کردیتا ہے اور محلے
والے پولیس کو فون پر اطلاع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے اکیلے رہنے والوں کو حکومت
سے ایک الیکٹرانک الارم دیا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ دن میں دو یا تین بار پولیس
اسٹیشن یا اسپتال سگنل بھیجتے رہتے ہیں۔ نہ بھیجنے کی صورت میں ان کو تشویش ہوتی
ہے اور اکیلے رہنے والے کے گھر ایمبولینس پہنچ جاتی ہے۔
لیکن ہماری پڑوسن یوزے زندہ تھی۔ چوتھے
دن گھر سے باہر نظر آئی۔ اس کے ہاتھ میں رنگین ہیٹ تھا اور چہرے پر اداسی۔ میں نے
ہیلو کر کے اس سے اس کے فرانسیسی محبوب کا پوچھا۔
اس نے ہاتھ سے اشارہ کرکے دکھ بھرے لہجے
میں کہا۔ ”چلا گیا۔“
”آپ
نے اسے نکال دیا؟“ میں نے اس سے پوچھا۔
”نہیں
اسے یہاں رہنا پسند نہیں آیا۔“ یوزے نے بتایا۔
”کیوں؟
فرانس سے تو سویڈن اچھا ہے۔“ مینے کہا
”بس“
یوزے نے خلاء میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔ ”کہتا تھا یہاں کا موسم اور ماحول اچھا
نہیں ہے۔ ہر وقت بادل اور اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ ہر وقت سردی اور برفباری ہوتی
رہتی ہے۔“ اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ ”آج وہ بہت یاد آ رہا ہے۔“
”کون؟
تمہارا امریکی شوہر؟“ میں نے پوچھا۔
”اسے
تو میں تقریباً بھلا ہی چکی ہوں۔ میرا فرانسیسی دوست .... کیسے ساتھ ساتھ مالمو
میں ہم گھوما کرتے تھے، شہر کی ایک ایک چیز مجھے اس کی یاد دلائے گی۔ گھر میں
بیٹھتی ہوں تو گھر کی ایک ایک چیز کاٹنے کو دوڑتی ہے، ایک ایک چیز کے ساتھ اس کی
یاد وابستہ ہے۔“
میں نے یوزے کی یہ بات ختم کرکے اپنے یورپی
دوست کی طرف حیرت سے دیکھا تو اس نے ہنس کر کہا۔
ارے بھائی یہ یورپ ہے اور یورپ کے بھی Scandinavian (شمالی) ممالک جن کے مقابلے میں جرمنی، فرانس، اٹلی، اسپین بھی
کچھ نہیں ہے۔
یہاں اس قسم کی باتیں عام ہیں۔ یہاں آپ
کو ایسی کئی عورتیں ملیں گی جن کو اکثر آپ یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ:
· یہ پرس مجھے پہلے
شوہر نے دیا تھا۔
· یہ سینڈل برتھ ڈے
پر میرے یونانی بوائے فرینڈ نے دی تھی۔
· یہ پرفیوم میرے
دوسرے میاں نے طلاق کے بعد نیوایئر ڈے پر بھیجا تھا۔
· یہ قلم میرے تیسرے
شوہر نے دیا تھا اور خود اس وقت چوتھے یا پانچویں شوہر کے ساتھ ہوں گی۔“
”آپ
نے بالکل صحیح کہا۔“ میں اس کی بات مانتے ہوئے بولا۔
”آپ کے یورپی تو کیا اس ملک اور اس
ماحول میں رہ کر ہمارے ایشیائی بھی بدل گئے ہیں اور آپ تو چیزوں کے لئے بتاتے ہیں۔
میں نے تو بچوں کے لئے بھی کچھ ایسا ہی سنا۔ اسٹاک ہوم میں ایک پاکستانی سے ملاقات
ہوئی بتانے لگا کہ اس کا بیٹا پاکستان میں اپنی دادی کے پاس رہتا ہے۔ اس پر میں نے
پوچھا۔ اپنی ماں کو تو یاد کرتا ہوگا؟“
”نہیں۔
وہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی بعد میں میں نے اسے طلاق دے دی۔“
”تو
یہ عورت کون ہے جو آپ کے ساتھ ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ میری
دوسری بیوی ہے۔“ اس نے جواب دیا۔ اس وقت ایک بچے کو کھیلتے دیکھ کر میں نے کہا ”یہ
لڑکا غالباً آپ کا اس بیوی سے ہوگا۔“
”نہیں
یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔“ اس نے جواب دیا۔ ”یہ لڑکا میری اس دوسری بیوی کا ضرور ہے
لیکن اس کے پہلے والے شوہر سے۔“
Comments
Post a Comment