دوسروں کی غلامی آپ کیسے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔


·      جیتے ہیں تو نوکری کی حسرت کے لئے اور زندہ رہتے ہیں تو غلامی کے لیے۔
·      یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کا کام نوکری کا حصول نہیں بلکہ نئے اور اچھوتے  بزنسس کا آغاز کرنا ہے۔
·      یونیورسٹی کو یونیورسٹی ہونا چاہیے ڈگریاں تقسیم کرنے اور بیروزگاری پھیلانے کی فیکٹری نہیں۔
·      اس روایتی تعلیم اور تعلیمی نظام کو ختم کرنا چاہیے جو نوجوانوں کو غلامی اور نوکری کے لئے تیار کرتا ہے۔
·      پوری دنیا میں ایم- بی- اے تک میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں کی غلامی آپ کیسے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں، لیکن اپنا بزنس کیسے ڈیولپ کرنا ہے اس معاملے میں پورا نظام تعلیم سرے سے خاموش ہے۔
·      ہمیں غلام نہیں آزاد نوجوانوں کی ضرورت ہے۔۔۔ ایسے نوجوانوں کی کہ جن کا طریق امیری نہیں فقیری ہو، جو خودی کو بیچنے والے نہ ہوں۔


ہمارا تعلیمی نظام بدقسمتی سے تین قسم کے "مائنڈ سیٹس" پیدا کر رہا ہے۔

1.  مائنڈ سیٹ:
ایک وہ مائنڈ سیٹ ہے جو اپنا پیٹ پالنے کے لیے پڑھ رہا ہے یہ "آرڈینری انکم" کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں، ان کو 9 سے 5 کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ ان بیچاروں کا اپنی صلاحیتوں، بے پناہ خوبیوں اور اپنی استعداد کار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ جیتے ہیں تو نوکری کی حسرت کے لئے اور زندہ رہتے ہیں تو غلامی کے لیے۔

2.  مائنڈ سیٹ:

دوسرا مائنڈ سیٹ "پورٹ فولیو انکم" کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر بن کر نوٹ چھاپنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی کوئی دکان لگا کر کچھ "بیچنا" چاہتے ہیں۔

3.  مائنڈ سیٹ:

تیسری قسم کا مائنڈ سیٹ وہ ہے جو پیسے کے لئے تیار ہو رہا ہے یہ بیٹھ کر پیسہ کمانا اور کھانا چاہتا ہے۔ یہ بلڈنگ پر بلڈنگ اور زمین پر زمین خریدتے ہیں اور اس طرح گھر بیٹھے ایک "لگژری لائف" انجوائے کرتے ہیں اس قسم میں ہر بڑے ادارے کے بڑے لوگ  بھی شامل ہیں۔

4.  مائنڈ سیٹ:

چوتھی قسم کا مائنڈ سیٹ یہ سوشل انٹرپرینورز ہیں۔  یہ عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر امجد علی ثاقب اور ڈاکٹر عبدالباری جیسے لوگ ہیں:
·      یہ معاشرے کے درد کو اپنا درد اور قوم کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں۔ یہ بل گیٹس، مارک زکر برگ اور اسٹیو جابز جیسے لوگ ہیں۔
·      یہ معاشرے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے ہیں۔
·      یہ سارے ہی لوگ چوتھے مائنڈ سیٹ کے لوگ ہیں یہ "آئیڈیاز" پر کام کرتے ہیں، یہ پیسے کے بجائے "آئیڈیاز" کے پیچھے بھاگتے ہیں۔
·      یہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بے شمار خوبیوں اور لامحدود استعداد کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں اورخوشیاں پیدا کردیتے ہیں۔
·      یہ ایدھی فاؤنڈیشن بنا کر لوگوں کے دکھ درد بانٹتے ہیں تو کوئی "فیس بک" بنا کر لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی مفت اسپتال چلاتا ہے تو کوئی اور ساری دنیا کو ایک "کلک" کے فاصلے پر لے آتا ہے، کوئی لوگوں کو بلا سود قرضہ حسنہ دیتا ہے تو کوئی اور اس کے لئے سسٹم ڈیولپ کر دیتا ہے۔

اگر ہمارے حکمران اپنی "میں" سے باہر نکلیں، ہمارے تاجر اپنی خود غرضی کے "خول" سے باہر آئیں اور ہمارا علمی طبقہ بے حسی کی غفلت کو "خیرباد" کہے تو ہم مل کر کوئی ایسا تعلیمی نظام یا کم از کم ایسا تعلیمی ادارہ ضرور تشکیل دے سکیں جو ہمارے نوجوانوں کو معاشی خودمختاری دے سکے، جو ان  میں کم ہمتی کے بجائے بلند ہمتی پیدا کرے اور جو غلامی کے بجائے خود داری کا درس دے۔

Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more