پیر حسام الدین راشدی


پیر حسام الدین راشدی، سندھ کے نامور عالم، ادیب، محقق، مقرر اور تاریخدان ہوکر گذرے ہیں۔ وہ سندھ کے مشہور راشدی سادات کے خاندان میں سے سید محمد حامد شاھ راشدی کے فرزند تھے۔ وہ 20 ستمبر 1911 ء کو لاڑکانہ کے راشدی پیروں کے گاﺅں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی چار کلاسیں سندھی اور مختصر فارسی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی تعلیم گھر میں حاصل کی۔

پیر صاحب کو بچپن ہی سے کتب اور اخبارات پڑھنے کا شوق تھا۔ درسی تعلیم کم ہونے کے باوجود، محنت اور مطالعہ کی وجہ سے ان کا شمار سندھ، پاکستان اور دنیا کے بڑے علماء میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پندرہ سال کی کم عمر میں صحافت شروع کی۔ شکارپور کے گاﺅں جاگن سے نکلنے والے اخبار ”جاگن“ کے نامہ نگار رہے۔ بعد میں ماہوار ”المنار“ کے کچھ وقت ایڈیٹر رہے اور بیک وقت مولوی عبدالکریم چشتی کے ماہوار اخبار ”پیغام“ کے نامہ نگار بھی تھے۔ 20 برس کی عمر میں سکھر سے نکلنے والے ”سندھ زمیندار“ اخبار سے وابستہ ہوگئے اور بعد میں اس کے ایڈیٹر ہوگئے۔ سکھر سے جب ہفتہ روزہ اخبار ”ستارہ سندھ“ شائع ہوا تو اس کے ایڈیٹر ہوگئے۔

پیر صاحب نے شاعری بھی کی کچھ افسانے بھی لکھے۔ کچھ وقت سندھ مسلم لیگ میں رہ کر سیاست بھی کرتے رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سیاست، صحافت اور زمینداری جیسے مشغلوں کو چھوڑ کر، کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی۔ وہاں رہ کر لکھنے، پڑھنے اور تحقیقی کام، زندگی کے آخری لمحات تک جاری رکھا۔ پیر صاحب نے سہ ماہی مہران (سندھی)، سہ ماہی ”اردو“، سہ ماہی ”ایران شناسی“ اور سہ ماہی ”پارس“ (فارسی) کے ادارتی شعبوں پر بھی کام کیا۔ پیر صاحب 1953 ء سے آخری عمر تک سندھی ادبی بورڈ کے میمبر رہے۔

اس کے علاوہ ”انجمن ترقی اردو“، ”اردو ڈولپمنٹ بورڈ“، ”مقتدرہ قومی زبان“، ”مرکز تحقیقات فارسی“، ”لیاقت نیشنل لائبرری“، ”اکیڈمک کونسل آف کراچی یونیورسٹی“، ”سندھ یونیورسٹی کی سینٹ اور سنڈیکٹ“، ”لاہور یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان“ ، ”ادارہ یادگار غالب“، ”اقبال اکیڈمی“، ”بھٹ شاہ ثقافتی مرکز“ اور ”انٹیٹیوٹ آف سندھالاجی“ اور دوسرے کئی علمی، ادبی اور تحقیقی اداروں کے میمبر اور مشیر رہے۔

ان کی اعلیٰ علمی اور ادبی کارکردگی کو دیکھ کر، حکومت پاکستان نے انہیں ”ستارہ امتیاز“ کا تمغہ دیا۔ فارسی ادب میں نمایاں خدمات کی بنا پر ایران حکومت نے ایک بار ”نشان سپاس“ اور دوسری بار ”نشان سپاس درجہ اول“ کے تمغے دیئے۔ پیر صاحب کو تہران یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ ان کے سندھی، اردو اور فارسی زبان میں 40 سے زیادہ لکھے، ترتیب اور ایڈٹ کئے ہوئے کتب چھپ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تینوں زبانوں کے مختلف رسالوں اور اخباروں میں 500 مضامین اور مقالات شایع ہوچکے ہیں۔

ان کے مطالعہ کا خاص موضوع ”سندھ کے فارسی ماخذ“، ”اولیاء اور شعراءکے تذکرے“، ”سندھ کی تاریخ“ اور ” آثار قدیمہ“ اور ”فارسی مطالعہ“ رہے۔ پیر صاحب کا دائرہ احباب سندھ سے باہر ایران اور ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے سندھ کی تاریخ کو نیا موڑ دیا اور ایک تاریخدان کی حیثیت سے نئے لکھنے والوں کو نئی راہیں دکھائیں۔

پیر صاحب یکم اپریل 1982ء کو انتقال کر گئے اور ان کو سندھ کے تاریخی قبرستان مکلی میں دفن کیا گیا۔

Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more