سویڈن میں پاکستانی - الطاف شیخ


سویڈن کیا جنوبی بندرگاہ مالمو (Malmo) میں کئی پاکستانی آباد ہیں حالانکہ ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی پڑوسی ملک ڈینمارک کے شہر کوپن ہیگن میں یا انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے شہروں لندن، بریڈ فورڈ، مانچسٹر، ہیمبرگ، فرینکفرٹ، اوسلو وغیرہ میں ہے جو کافی عرصے سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ ماضی قریب میں کسی اکا دکا پاکستانی کو سویڈن میں رہنے کی اجازت ملی ہوگی کیونکہ سویڈن حکومت نے غیر ملکیوں کو یہاں سویڈن میں رہنے کیلئے قوانین سخت کردیئے ہیں۔

آج سے تیس سال قبل جب میرا پہلی دفعہ بحری جہاز پر ان ممالک میں آنا ہوا تو مجھے یہاں صرف مقامی لوگ ہی نظر آئے۔ بعض بڑے شہروں میں اگر کوئی ایشیائی ملتے تو صرف پاکستانی اور بھارتی وہ بھی گنے چنے۔ افریقی تو شاید ہی کوئی نظر آتا تھا اور عرب ایرانیوں کے یہاں ہونے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

لیکن آج کل سویڈن، ناروے، ڈنمارک میں تقریباً ہر ملک کے باشندے نظر آئیں گے جنہوں نے اپنے مذہب اور اپنی حکومت (سیاسی نظام) کے بے جا ظلم کا بہانہ بنا کر یہاں سیاسی پناہ حاصل کرلی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایرانیوں، عراقیوں، سری لنکا کے تامل باشندوں، پاکستان کے باشندوں کی ہے۔

شروع میں یہاں کا قانون ایسا تھا کہ کوئی بھی اپنی دکھ درد بھری جھوٹی سچی داستان سنا کر یہاں کی رہائش اختیار کر سکتا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب یورپ کے ان ممالک میں سیاسی پناہ ملنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

شروع شروع میں جو یہاں پاکستانی رہائش پذیر تھے، ان میں اکثریت ان کی تھی جنہوں نے یہاں شادی کے بہانے پاسپورٹ حاصل کیا۔ ان میں سے کچھ آج بھی ان عورتوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بعض نے پاسپورٹ اور رہائش حاصل کرنے کے بعد مقامی عورتوں سے علیحدگی اختیار کرلی اور پاکستان سے شادی کرکے آگئے۔

ہمارے گھر کے قریب بھی کچھ پاکستانی رہتے ہیں، ہماری عمارت کے درمیان والی عمارت کی پہلی منزل پر کوئٹہ کا ارباب داﺅد اپنی سوئیڈش بیوی EVA کے ساتھ رہتا ہے جس کا اسلامی نام حوا ہے۔ آج سے تقریباً تیس سال قبل یہاں آئے تھے۔

ارباب داﺅد کو پشتو اور بلوچی کے علاوہ اردو اور سندھی بھی صاف صاف آتی ہے۔ ارباب داﺅد ہر سال سخت سردی کے دو تین مہینے اپنے شہر کوئٹہ میں گزارتا ہے باقی وقت یہاں سویڈن میں۔

پختون قبیلے کاسی کی دو شاخیں ہیں۔ ایک ملک اور دوسری ارباب جس سے داﺅد کا تعلق ہے۔ ارباب داﺅد کا دادا خان بہادر ارباب کرم خان اور ان کے بھائی ارباب خداداد بلوچستان کی اہم شخصیات تھیں ارباب داﺅد کے والد ارباب عبدالقادر نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ انگریزوں اور حکومت کے ظلم کے خلاف جیلوں میں گزارا۔

داﺅد اور میرے دفتر اور آرام کے اوقات ایک جیسے ہونے کی وجہ سے ہماری اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ داﺅد جب بھی فارغ ہوتا تو مجھے بلالیتا یا فون پر حال احوال سناتا۔

’سائیں کیا کر رہے ہو؟ جاگنگ چھوڑو، ادھر میرے پاس آﺅ تو گپ شپ کریں اور قہوہ پئیں“ وہ مجھے نیچے ٹہلتا دیکھ کر اپنی کھڑکی سے آواز دیتا۔

سائیں! ان ملکوں میں رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے خصوصاً اپنی جوان اولاد کے ساتھ۔ یہاں کے مغربی اور نیم عریاں ماحول میں زندگی گزارنا بڑا مشکل کام ہے۔ خصوصاً ان لوگوں کیلئے جن کی بیٹیاں ہیں۔

پاکستان کے دور دراز دیہات سے آئے ہوئے لوگ جو مشرقی ماحول میں پرورش پاکر آئے ہیں ان سے ان کی نوجوان اولاد کے خیالات اور قدریں مختلف ہیں۔ ان کے بچے مغرب کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور وہ بھی سویڈن، ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ جیسے ماحول میں جن کے سامنے انگلینڈ، فرانس، اٹلی، اسپین جیسے یورپی ممالک بھی جاہل اور غیر ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔

بہرحال ہمارے پاکستانی بھائیوں کی بیٹیاں جب بڑی ہوتی ہیں تو ان کے والدین قطعی یہ نہیں چاہتے کہ ان کی شادیاں یورپ میں ہوں۔ وہ ان کی شادیاں اپنے بھانجے بھتیجے یا دیہات کے کسی عزیز سے ہی کرواتے ہیں۔

وہ یہی سوچتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں پاکستانی کے گھر میں پیدا ہوئی ہیں، پاکستانی کھانے کھائے ہیں، ان کے پاکستانی نام ہیں اس لئے ان کی سوچ بھی والدین کے طرح پاکستانی ہوگی۔

لیکن ان بیوقوفوں کو کون سمجھائے کہ سویڈن میں پلی بڑھی لڑکی شکل سے ضرور پاکستانی لگتی ہے لیکن یورپ میں رہ کر اس کا دماغ تو یقینا یورپی ہوجاتا ہے۔ وہ بچپن سے لےکر جوان ہونے تک اسکول کالج، پڑوس اور گھر میں ٹی وی پر دن رات بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ، نیم عریاں کپڑوں میں ڈانسنگ، تنہا اور رومانوی مقامات پر پکنک اور ڈیٹنگ، جنسی آزادی اور کھلے عام بوس و کنار جیسی چیزیں دیکھنے اور سننے (اور پسند کرنے) کے بعد میرپور، رحیم یار خان، ساہیوال کے گاﺅں / دیہہ چک فلاں کے پگڑ باندھنے والے اپنے دیہاتی کزن سے شادی کرکے لال رنگ کی موٹی چادر اوڑھ کر ڈھیلی چار پائی پر کیسے بیٹھ سکتی ہے، جس کے سامنے سویڈن کے خوبصورت نظاروں کی بجائے کیچڑ سے لتھڑی بھینسیں اور بیمار کتے ہیں گوبر کی بدبو اور مچھر ہیں۔

نتیجتاً وہ موقع پاکر اس ماحول سے بھاگ نکلتی ہے۔ سویڈن جو اب اس کا ملک ہے جس کا وہ پاسپورٹ رکھتی ہے، وہاں کے ائیرپورٹ پر پہنچ کر پہلا کام وہ یہ کرتی ہے کہ پولیس کو فون کرکے اطلاع کرتی ہے کہ اس کے والدین نے اس کی مرضی کے خلاف آدھے تھان کی شلوار میں ملبوس جس پگڑ خان سے اس کی شادی کرائی ہے اس کے ساتھ وہ کسی صورت میں نہیں رہ سکتی اور اب سویڈن میں موجود اس کے دقیانوسی خیال کے باپ سے اسے تحفظ فراہم کیا جائے۔

ایسی صورت میں سویڈن کے قانون کے مطابق حکومت کی طرف سے لڑکی کو کسی محفوظ جگہ پر رہائش کیلئے فلیٹ مہیا کیا جاتا ہے، جس کا پتہ راز میں رکھا جاتا ہے، تاکہ لڑکی کے والدین کو اس کا علم نہ رہے۔ اس وقت ایسی دو ہزار کے قریب لڑکیاں سویڈن میں موجود ہیں جنہوں نے والدین کے اس ”ظلم“ کے خلاف حکومت سے پناہ لے رکھی ہے۔

ارباب داﺅد نے بتایا کہ:

یہاں سویڈن میں بچوں کو مذہب اور مشرقی اخلاقیات سیکھنے کیلئے نہ وقت ہے نہ ماں باپ کو اس کی کوئی پرواہ۔ زیادہ سے زیادہ بچے اسلام علیکم کہتے ہیں یا کلمہ پڑھتے ہیں تو ان کے والدین خوش ہوتے ہیں کہ بچے کو کلمہ پڑھنا آتا ہے وہ اس ماحول میں پکا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔

داﺅد نے اپنے پالتو طوطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”دیکھو کلمہ تو میرے طوطے کو بھی یاد ہے اور جیسے ہی کوئی گھر میں داخل ہوتا ہے تو یہ السلام علیکم کی گردان شروع کردیتا ہے۔ اور جب تک ڈانٹو نہیں السلام علیکم کی ہی رٹ لگا رکھتا ہے۔

سویڈن دنیا کی صحیح معنوں میں سوشل ویلفیئر ریاست ہے جس کی حکومت ملک میں رہنے والے ہر شخص کا خیال رکھتی ہے۔ نوکری روزگار سے لے کر صحت اور علاج تک۔ خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کو بہت توجہ دی جاتی ہے۔

بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتے ہی ماں کو حکومت کی طرف سے بچے کا الاﺅنس ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد یہ مزید بڑھ جاتا ہے اور گھر کے کرائے میں بھی آدھا حکومت دیتی ہے۔ یہ الاﺅنس اس کے علاوہ ہے جو ماں باپ کو بے روزگاری کی حالت میں ملتا ہے۔ بچے کی وجہ سے ماں باپ کو پیسے کے معاملے میں اتنی مدد ملتی ہے کہ یہاں رہائش اختیار کرنے والے ایشیائی لوگوں نے زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرنے کیلئے بچے پیدا کرنے پر زور دے رکھا ہے۔

بہرحال اس کیش الاﺅنس کے علاوہ بچوں کیلئے حکومت کی طرف سے علاج معالجہ اور اسکول کی مفت سہولیات حاصل ہیں۔ بس یا ٹرین میں سفر کرنے کا ٹکٹ اور اسکول میں کھانا مفت ملتا ہے۔ بچے کے ساتھ موجود اس کی ماں یا باپ بھی مفت سفر کر سکتے ہیں۔ اس طرح ریٹائر یا بوڑھے ہونے پر مزید الاﺅنس ملتے ہیں۔ کفن دفن کا بندوبست بھی حکومت کرتی ہے۔ اس لئے اس ملک کیلئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہاں کی حکومت اپنے لوگوں کا (جن میں ایشیا اور افریقہ کے لوگ بھی آجاتے ہیں جن کے پاس یہاں کا پاسپورٹ ہے) صحیح معنوں میں پیدا ہونے سے مرنے تک (From Womb to Tomb) خیال رکھتی ہے۔

لیکن حکومت جہاں بچوں کا اتنا خیال رکھتی ہے اور ان کی خاطر والدین کو خوب پیسہ دیتی ہے وہاں ان پر یہ فرض بھی عائد کرتی ہے کہ بچوں کی ہر جائز ضروریات پوری کی جائے اور ان کو دکھ نہ پہنچایا جائے۔

ایسا تو نہیں ہے کہ بچے کا الاﺅنس ماں باپ ہڑپ کرلیں اور بچے کو بھوکا پیاسا رکھیں اور اس کی رہائش اور کپڑوں کا خیال نہ کریں۔ اس معاملہ میں یہاں کی حکومت اتنی سخت ہے کہ کوئی بچہ اگر پولیس کو فون کرلے، اسکول میں اپنی استانی سے ذکر کرلے یا کوئی پڑوسی سوشل ڈپارٹمنٹ کو اطلاع کرلے کہ بچے کے ساتھ اس کے ماں باپ صحیح سلوک نہیں کر رہے ہیں تو اسی وقت ہی پولیس پہنچ جاتی ہے کیونکہ ایک طرح دیکھا جائے تو بچے پیدا تو ماں باپ کرتے ہیں لیکن ملکیت ریاست کی ہیں جو ان پر خرچہ کرتی ہے اور غریب سے غریب بچے کو بھی ہر وہ بنیادی چیز مل جاتی ہے جو امیر کے بچے کو حاصل ہے۔

سردی میں کوئی بچہ اگر بغیر گرم کپڑوں کے اسکول میں یا شام کو گھر کے باہر کھیلتا نظر آئے تو پولیس اس کے ماں باپ پر سختی کرتی ہے کیونکہ حکومت بچے کی ہر ضرورت کیلئے والدین کو خرچہ دیتی ہے۔ بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دیتی ہے۔

دوسرے یورپی ممالک کی طرح یہاں سویڈن میں بھی لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ کھیلتے ہیں اور گھومنے پھرنے نکلتے ہیں۔ ارباب داﺅد نے بتایا کہ سویڈن کی تعلیمی پالیسی کے مطابق سوئمنگ، پکنک اور جمناسٹک جیسی چیزیں بھی لڑکے اور لڑکیوں کو مل جل کر کرنی پڑتی ہیں۔ پھر جب ہمارے ممالک کے لوگ اس چیز کو برا سمجھ کر لڑکیوں کو مختصر لباس پہن کر تیراکی یا جمناسٹک کرنے سے منع کرتے ہیں تو کئی لڑکیاں ماں باپ کے خلاف ہوجاتی ہیں۔

وہ یہی کہتی ہیں کہ جب ترکی، لبنان، مراکش ممالک کی لڑکیاں جو ان کی ہی طرح مسلمان ہیں دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر نہا سکتیں ہیں تو ان کو منع کیوں کیا جاتا ہے۔ اور ان کے ماں باپ ان کو اسکول جانے سے روک کر جب زبردستی گھر میں بٹھاتے ہیں تو اسکول کی طرف سے والدین کیلئے تنبیہہ کا لیٹر آجاتا ہے کہ وہ لوگ قوم کے مستقبل کیلئے مسائل کیوں پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ حکومت کی طرف سے نفسیاتی معالج مقرر کیا جاتا ہے کہ ان کے دماغ کا جائزہ لیا جائے کہ کہیں یہ پاگل تو نہیں ہوگئے کہ اپنے بچوں کو تیراکی اور جمناسٹک جیسے صحت مند کھیلوں سے منع کرتے ہیں اور اگر والدین ملک کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب نے ان چیزوں سے منع کیا ہے تو ان کو یہی جواب ملتا ہے کہ:

اس صورت میں اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ ہم نے تو آپ کو نہیں بلایا تھا۔ آپ خود ہی آئے تھے اور رونا رونے لگے تھے کہ ہمارے ملک میں صحیح حکومت نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اب ہر چیز میں نقص نکال رہے ہو۔

اور پھر مشرقی والدین کشمکش میں پڑجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی اولاد بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہی باتیں ہیں جن کی وجہ سے یہاں کی مقامی نوجوان نسل ہم ایشیائی افراد سے خائف ہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم ایشیائی ایسے بھوکے اور پیسے کے لالچی ہیں کہ محض مذہب اور سیاست کا بہانہ بنا کر ان کے ممالک میں دولت کی خاطر رہتے ہیں۔

ویسے ظاہری طور پر تو یہاں کے لوگ بہت فراخ دل اور انسان دوست نظر آتے ہیں۔“ میں نے داﺅد سے کہا۔

پہلے بہت تھے۔“ داﺅد نے بتایا۔

”لیکن اب وہ اتنے نہیں رہے ہیں خاص طور پر ان کی نوجوان نسل۔ وہ کہتی ہے کہ ہم ایشیائی لوگ کسی ظلم و ستم سے تنگ آکر نہیں بلکہ دولت کمانے اور عیاشی کرنے یہاں آئے ہیں۔ اور اس کے بدلے میں ان کے ملک کا ماحول خراب کرتے ہیں۔ اسمگلنگ، چوری، زیادتی جیسی کئی وارداتوں میں کئی ایشیائی (پاکستانی، افغانی، عراقی اور ایرانی) مسلمان پکڑے گئے ہیں۔

کچھ مہینے پہلے کچھ قادیانیوں نے یہ کہہ کر یہاں سیاسی پناہ مانگی کہ ان کے ساتھ مذہب کی بناء پر پاکستان میں ظلم ہوا ہے اور ہم لوگ جان بچا کر یہاں پہنچے ہیں۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب جھوٹ تھا، خاص طور پر ان لوگوں کی کہانی جھوٹی تھی وہ تو کئی برس سے پڑوسی ممالک پولینڈ اور جرمنی میں غیر قانونی طور پر ملازمت کر رہے تھے اور موقع پاکر سویڈن پہنچ گئے کیونکہ یہاں کوئی نوکری نہ کرے تو بھی سرکار اسے گھر بیٹھے بیروزگاری کا خاص بھتہ پہنچاتی ہے۔

لیکن اب دن بدن سختی بڑھتی جا رہی ہے۔ ناروے جیسے ممالک نے سیاسی پناہ دینی بند کردی ہے۔ جو اس بنیاد پر ان کے ملک میں آتے ہیں انہیں ملائیشیا کی طرح الگ کیمپوں میں رکھ دیتے ہیں۔ وہاں پڑے بور ہوتے رہتے ہیں پھر دو تین مہینے عدالت میں مقدمہ چلا کر اپنے اپنے ملک واپس بھیج دیتے ہیں۔ کرائے کے پیسے بھی اس کے سفارتخانے سے وصول کرلیتے ہیں۔

چند روز قبل سری لنکا سے تامل لوگ ناروے پہنچے جن میں زیادہ تر بوڑھی عورتیں اور بچے تھے اور جن کے ساتھ واقعی ظلم ہوا تھا اور ان کو رکھنے کیلئے ناروے پر عالمی دباﺅ بھی پڑا تھا جس پر انہوں نے مجبور ہوکر ان کو سیاسی پناہ دی لیکن شہروں میں رکھنے کی بجائے ایک ویران جزیرے پر بسایا گیا جہاں سنا ہے کہ وہ اتنے بیزار ہیں کہ یہاں رہنے کی بجائے واپس اپنے ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

داﺅد نے بتایا کہ:

یہاں کی نوجوان نسل پُرتشدد بھی ہوتی جا رہی ہے۔ کٹر قوم پرست موقع ملنے پر ایشیا کے لوگوں کو گالی گلوچ یا مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کے ممالک میں قانون سخت ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے اس لئے ذرا ڈرتے ہیں اور ہم لوگ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں ورنہ یہاں کے مقامی لوگوں کو ہم باہر والوں پر بہت غصہ ہے۔

حکومت کا تحفظ نہ ملے یا غنڈہ گردی بڑھ جائے تو ہم ایشیائی اور افریقی لوگوں کو یہاں سے بستر گول کرنا پڑ جائے۔ ہمیں تو کیا پولینڈ، ہینگری، اٹلی، پرتگال، البانیہ جیسے یورپی ممالک کے لوگوں کو بھی سویڈن چھوڑنا پڑجائے۔

یہاں کے یعنی سویڈن کے لوگوں کیلئے اگر دنیا میں اچھے، بہتر اور حسین لوگ ہیں تو وہ ان کے اپنے پڑوسی ممالک ڈینمارک، ناروے اور فن لینڈ کے ہیں جو Scandinavian ممالک کہلاتے ہیں۔

Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more