ورق اول:
میری زندگی کئی لحاظ سے ایک قسم کے پُل
جیسی ہے جو زمانے کے مختلف ادوار کے اوپر بنا ہے۔ اگر میری زندگی کو مغربی نقطہ
نگاہ سے دیکھا جائے تو میں ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کی مکمل زندگی بسر کر چکا ہوں
اور اس وقت بھی اسی طرح کی زندگی موجودہ ملکہ ایلزبیتھ کے دور میں گذار رہا ہوں۔
میں جوانی کے وقت شھزادی وکٹوریہ کے
ساتھ ایک ڈنر پارٹی میں بیٹھا تھا۔ حال ہی میں ملکہ ایلز بیتھ ثانی کی چائے نوشی
کی ایک تقریب میں شریک تھا اور جب تک تقریب ختم نہیں ہوئی تب تک میں شھزادی کے
ساتھ گفتگو کرتا رہا۔
میری جوانی کے دور میں اسٹیم پر چلنے
والا انجن ابتدائی اور تجرباتی مراحل میں تھا اور موٹر گاڑی کا ذکر کرنے والے کا
لوگ مذاق اڑاتے تھے اور اسے پاگل کہتے تھے۔ ابھی تو ہم آواز سے تیز چلنے والے
ہوائی جہاز کو معمولی بات سمجھتے ہیں۔
آج کل ایک سیارہ سے دوسرے سیارہ کی طرف سفر
کرنے کیلئے سنجیدگی سے غور و حوض کیا جا رہا ہے۔ مگر میں جوان ہوچکا تھا اس وقت
لوگ ہوا میں اڑنے کی کوشش کو ذہن میں بھی نہیں لاتے تھے۔ ایک دور تھا جب لارڈ کیلون
دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان مانا جاتا تھا، جس نے مجھے نہایت سنجیدگی اور غور و
فکر کے بعد یقین دلایا تھا کہ انسان کیلئے ہوا میں اڑنا بلکل ناممکن ہے۔
مشہور ناول نویس ایچھ۔ جی ویلنس نے بھی
اپنی پہلی کتاب ”ائنٹیسیسیپیشن“ میں لکھا ہے کہ ہوا پر قبضہ کرنا اور ایٹمی طاقت
کا معلوم کرنا دو یا تین صدیون سے پہلے نہیں ہو سکتا، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ
تمام باتیں آدھی صدی کے مختصر زمانے میں ہو چکی ہیں۔
ورق دوئم:
جس گھر میں میری پرورش ہوئی وہ علمی ذوق
رکھنے والا گھر تھا۔ میں اپنی والدہ کے شاعرانہ مزاج کا ذکر کر چکا ہوں۔ وہ فارسی
اور عربی علم و ادب کے بارے میں گہری معلومات رکھتی تھیں۔ ان کے کچھ خدمتگار اور
سہےلیاں بھی ایسی ہی معلومات رکھتی تھیں۔ میری والدہ کو کئی اشعار یاد ہوتے تھے۔
ان میں یہ خداداد صلاحیت تھی جو موقعہ کے مناسبت سے قدیم شعراء کا کلام سنا سکتی
تھی۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہی قابلیت ان کی پوری زندگی میں قائم رہی۔
جب وہ 90 برس کے قریب ہوئی تب بھی انہیں
موقعہ کے مناسبت سے صحیح شعر پڑھنے میں دقت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اشعار نہ صرف حافظ،
فردوسی یا رومی جیسے بڑے شعراءکے ہوتے تھے بلکہ زیادہ چھوٹے اور گمنام شعراءکے بھی
ہوتے تھے۔
اسی سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ مثال
کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ والدہ صاحبہ کے انتقال سے کچھ وقت پہلے میرے ایک بھائی
(کزن) نے ایک رات کھانے کے وقت فارسی کا ایک شعر پڑھا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ مبادا
والدہ صاحبہ پریشان اور خفا ہوجائیں! میں نے کہا کہ یہ شعر ”حافظ“ کا ہے۔ والدہ
صاحب نے فوراً جواب دیا یہ شعر حافظ کا ہرگز نہیں ہے، اس کے بعد اسی گمنام شاعر کا
نام بھی بتایا، جس کا یہ شعر تھا اور یہ بھی بتایا کہ مذکورہ شعر اس شاعر کے کلام
میں کون سی جگہ کہا گیا ہے۔
ورق سوئم:
جب میری عمر تیرہ برس تھی تب میں انگریزی،
فرانسیسی عام اور فارسی مکمل اور عربی اچھی لکھ پڑھ سکتا تھا۔ سائنس کم از کم
ابتدائی اصولوں کی اچھی خاصی معلومات تھی۔ علم کیمیا (Chemistry)،
علم طب
(Physics) ،
علم نباتات
(Botany) اور علم حیوانات (Zoology) سے تعلق تھا۔ میری تعلیم کتابی تعلیم نہیں تھی۔ ہمارے
گھر میں ایک لیبارٹری ہوتی تھی جس میں مجھے روزانہ مقرر وقت پر عملی اور تجرباتی
کام کرنا پڑتا تھا۔
مجھے بچپن ہی سے مطالعہ کا ایسا شوق
پیدا ہوا کہ میں اس سے سیر نہیں ہوتا تھا۔ میری عمر جب دس برس تھی اس وقت سے میرے
مطالعہ کا شوق دن بدن بڑھتا ہی چلاگیا، جب میں نے اپنی لائبرری کی تمام کتب پڑھ
ڈالیں تو مزید تلاش کی۔
اس کے بعد دوسری جگہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔ میں اپنے لئے
کتابیں خریدنا چاہتا تھا، مگر اس میں تھوڑی رکاوٹ تھی وہ یہ کہ والدہ مجھے جیب خرچ
نہیں دیتی تھیں۔ میں نے اور میرے کزن نے اس مشکل کو دور کرنے کیلئے ایک شاندار طریقہ
تلاش کر لیا۔
ہم میں سے ہر ایک عبا پہنتا تھا یوں ہم عبا پہن کر ممبئی کی ایک
مشہور کتابوں کی دکان پر گئے اور ہم میں سے ایک دکاندار کو دلچسپ گفتگو میں مصروف
رکھتا اور دوسرا کچھ کتابیں کھسکا کر عبا میں رکھ لیتا تھا، ہماری یہ چھوٹی شرارت
جلد ظاہر ہوگئی۔ دکان کے مالک نے میرے چچا اور والدہ سے اس بات کا ذکر کردیا۔
ہمارا بل تو انہوں نے فوراً ادا کردیا، مگر ہمارے خاندان نے فیصلہ کیا کہ ہمیں اس
شرارت کا سبق سکھایا جائے!
ہم سے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ ہم نے دستور کے مطابق
چھوٹی شرارت کا کھیل جاری رکھا، ہم ایک دن اسی کام میں مشغول تھے کہ میرے چچا دکان
میں داخل ہوئے اور سختی سے حکم دیا اپنا عبا اتاردو؟
جیسے ہی ہم نے حکم کی تعمیل
کی تو کھسکائی ہوئی کتابیں فرش پر گر پڑیں اور ہمارا پچھتاوا ظاہر ہوگیا۔ میرے
خیال میں اس دن سے آج تک میں نے کبھی بھی دوسرے کے باغ سے ایک پھول بھی بغیر اجازت
کے نہیں توڑا! میں نے اپنا مطالعہ جاری رکھا، مگر وہ کھسکائی کتب سے نہیں تھا۔
Comments
Post a Comment