کُتا پالنا آسان کام نہیں ۔۔۔ ایک سویڈش - الطاف شیخ



ایک سویڈش  نے مجھ سے کہا۔
”آپ مسلمان لوگ کُتا کیوں نہیں پالتے؟“
”ہمارے مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔“ میں نے اسے جواب دیا ”کیونکہ اسے نجس جانور سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً اس کی زبان سے جو لعاب ٹپکتا ہے وہ ناپاک ہے۔“

میں نے اسے وہی جواب دیا جو ملائیشیا کے ملئی لوگ اکثر دیتے ہیں جب ان سے کوئی غیر ملکی پوچھتا ہے کہ آپ کے ملک (ملائیشیا) میں چینی لوگ تو کُتا پالتے ہیں لیکن تم لوگ (ملئی) کیوں نہیں۔ آپ کسی بھی ملئی گاﺅں میں چلے جائیں آپ کو وہاں بلیاں تو نظر آئیں گی لیکن کُتا کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔

بہرحال سویڈش  نے یہ جواب سن کر کہا:
”یار سچ کہتے ہو۔ سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے اس کے باوجود کتے کو پالنا آسان نہیں۔ اس کو صاف ستھرا رکھنا اور اس کے جراثیم سے بچنے کے لئے بڑی محنت اور خدمت کرنی پڑتی ہے۔ ہر وقت نہلانے دھونے کے علاوہ وقت کی پابندی سے اسے کئی دوائیاں کھلانی پڑتی ہیں۔

سال بھر کئی ٹیکے لگانے پڑتے ہیں پھر بھی اس کے صاف ستھرے ہونے سے دل مطمئن نہیں ہوتا۔ کسی وقت بھی اس کو کوئی بیماری لگ سکتی ہے یا اس کی لگی ہوئی بیماری انسانوں میں پھیل سکتی ہے۔“

اتنی مشکلوں کے باوجود یہاں کے لوگوں کو کُتا پالنے کی ہمت ہے۔ وہ اپنے پالتو کتوں کو ان کی نسل کے مطابق مقررہ وقت پر خوراک دیتے ہیں۔
سیر کراتے ہیں اور سردی ہو یا برفباری، روزانہ مقرر کئے ہوئے وقت پر اپنے کتے کو رفع حاجت کیلئے باہر پارک میں یا ویران جگہ پر لے جاتے ہیں۔

مجال ہے کوئی کُتا گھر میں گندگی کرے۔ اور مجال ہے کسی کتے کا مالک معمول کے اس کام میں کسی قسم کا ناغہ کرے۔

ایک دن میں اپنے سویڈش  پڑوسی کے پاس بیٹھا تھا تو شہر کے دوسرے کونے میں رہنے والا اس کا بھائی اسے ملنے آیا۔ جس کے ساتھ اس کا کُتا بھی تھا۔ وہ اپنی آنکھوں کا آپریشن کرانے کے لئے اسپتال میں داخل ہونے والا تھا۔

”میرے لائق کوئی خدمت؟“ میرے پڑوسی نے اپنے بھائی سے پوچھا۔
”مجھے کسی اور چیز کی فکر نہیں ہے۔“ 

اس کے بھائی نے کہا۔ ”بس اس کتے کو تمہارے حوالے کرنے آیا ہوں۔ اس کے کھانے پینے، ٹہلانے اور ٹوائلٹ کے اوقات لکھ لو جو تمہارے کتے کے وقت سے کافی ملتے ہیں بس یہی تکلیف تمہیں دینی تھی۔“

اس کے جانے کے بعد میرے پڑوسی نے بتایا کہ وہ جب دوسرے شہر یا ملک جاتا ہے تو اپنا کُتا اپنے بھائی کے حوالے کر جاتا ہے۔ کیونکہ اپنے کتے کو اکیلا گھر میں یا گلی میں چھوڑ جانا جرم ہے۔ 

کھانے کا مسئلہ تو یوں بھی حل ہوسکتا ہے کہ میں غیر موجودگی والے دنوں کیلئے کچھ زیادہ کھانا کتے کے پاس چھوڑ کر چلا جاﺅں جو وہ روز کھاتا رہے لیکن صبح کے وقت اسے ٹوائلٹ کے لئے نہ نکالنے پر وہ بھونک بھونک کر پوری عمارت سر پر اٹھالے گا اور محلے والے جمع ہو کر میرے خلاف تھانے میں شکایت درج کرادیں گے۔

سویڈن میں کُتا پالنے والے کے لئے حالانکہ اتنی سختی نہیں ہے جتنی سنگاپور میں ہے جہاں کتے کی وجہ سے سڑک یا پارک گندا ہونے پر ایک ہزار ڈالر جرمانہ ہے۔ 

سویڈن میں اخلاقی طور پر ہر سویڈش  پر صرف یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ جب اپنے کتے کو سیر کرانے کے لئے نکلے تو اپنے ساتھ جیب میں پلاسٹک کی تھیلی ضرور لے چلے تاکہ اس کا کُتا بغیر شیڈول کے ٹوائلٹ کرے تو وہ (یعنی مالک) تھیلی کو ہاتھ پر چڑھا کر اپنے کتے کے فضلے کو ایک دم اٹھالے اور کسی گلی کے نکڑ پر اس مقصد کے لئے رکھے ہوئے ڈبے میں ڈال دے۔

سویڈن میں مردوں سے زیادہ عورتیں کُتا پالتی ہیں۔ بوڑھی عورتیں چھوٹے قد اور جسامت کے کتے پالتی ہیں جن سے وہ کھیلتی اور باتیں کرتی رہتی ہیں شاید احساس تنہائی مٹانے کے لئے۔

نوجوان عورتیں اور ٹین ایج لڑکیاں ۔۔۔ خاص طور وہ لڑکیاں جو کم آبادی والے علاقوں میں اکیلی رہتی ہیں بہت بڑے اور خوفناک شکل کے کتے پالتی ہیں۔ شاید اپنے بچاﺅ کے لئے۔

لیکن ان کتے پالنے والی لڑکیوں اور بوڑھیوں میں ایک بات ضرور مشترکہ ہے کہ وہ اپنے کتے کو سیر کراتے وقت اپنے ساتھ پلاسٹک کی تھیلیاں لے چلتی ہیں اور بوقت ضرور وہ اپنے کتے کا فضلہ اٹھا کر سڑک کو صاف رکھنے میں نہ تو اپنی بے عزتی محسوس کرتی ہیں نہ اسے عیب سمجھتی ہیں۔

جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں۔ اس طرح سویڈن کے سارے لوگ بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔ کبھی کبھی ایسے لوگ بھی نظر آجاتے ہیں جو اپنے کتے کی گندگی نہیں اٹھاتے۔

ان میں سے ہولما کے بس اسٹاپ کی قریبی عمارت میں رہنے والی ایک موٹی عورت ہے۔ اس کے پاس دو کُتے ہیں جن کو وہ روزانہ شام کو ایک بس اسٹاپ کے عقبی پارک میں سیر کے لئے لاتی ہے۔

اس عورت کو ہم نے کبھی بھی صفائی کا کام کرتے نہیں دیکھا۔ کبھی کبھی تو اس کے کتے بس اسٹاپ کے اس حصے کو بھی خراب کردیتے ہیں جہاں ہم (ہولما کے علاقے کے لوگ) بس کا انتظار کرتے ہیں۔

”یہ عورت یہاں کی رہنے والی نہیں ہے۔ یعنی سویڈش  نہیں ہے۔“ میرے سویڈش  پڑوسی نے مجھے ایک دن بتایا اور اس کے سر کے لال بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”یہ پولش ہے۔ تقریباً دس بارہ سال قبل پولینڈ چھوڑ کر یہاں آ بسی تھی۔ اب اس کے پاس سویڈن کی قومیت اور پاسپورٹ ضرور ہے لیکن افسوس کہ اس کی ذہنیت ابھی تک وہی ہے۔“

اور پھر کچھ دیر سوچ کر کہنے لگا:

اسی لئے تو ہم باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے خائف ہیں۔ وہ ہمارے ملک سویڈن میں رہ کر ہمارے ملک کے فائدے اور سہولتیں تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں کے نظم و ضبط اور اصولوں کی پابندی نہیں کرنا چاہتے۔ اور اس طرح ہمارے خوبصورت ملک سویڈن کی پرانی قدروں کو مٹا رہے ہیں۔

مختلف ممالک سے آئے ہوئے یہ لوگ سویڈن کے لوگوں کو دیکھ کر ہر چیز کی چاہ تو کرتے ہیں مگر ذمہ داری اور فرائض سے بھاگتے ہیں، ملک کے قاعدے قانون کا احترام نہیں کرتے، اپنے پڑوسیوں اور شہر کے رہنے والوں کا خیال نہیں رکھتے۔


Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more