مبارک ولیج - محمد اسامہ



یہاں سکون ہے، بس موجوں کا شور اٹھ رہا ہے۔ اس قدر پرسکون ماحول میں انسان اپنی پریشانیاں، مایوسیاں غرض کہ تمام تر الجھنیں بھول جاتا ہے۔ ساحل کے قریب پہنچتے ہی وہاں پانی میں ڈولتی لنگر انداز کشتیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

اس ساحل کے نظاروں کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے، ایک طرف پہاڑی سلسلہ، دوسری طرف صاف ستھرا ساحل، تاحد نگاہ نیلا سمندر، شیشے کی طرح شفاف پانی، پتھروں سے ٹکراتی سمندر کی لہریں۔

یہ ایسا ساحلی مقام ہے، جہاں تک پہنچنے کےلئے دشوار گزار پہاڑی رستوں سے گزرنا پڑتا ہے، مگر نئے دلفریب نظارے مہم جو افراد کے قدموں کو حوصلہ دیتے ہیں اور سفر کو پُر لطف بنادیتے ہیں۔

گاؤں کی اس آبادی سے متعلق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سندھی مچھیروں کی بستی کہلاتی ہے۔ جب مچھلی کا کاروبار ماند پڑ گیا تو یہ نقل مکانی کر گئے۔ ان کے نقل مکانی کر جانے سے یہ ایریا غیر آباد ہو گیا اور ان کے گھر کھنڈر میں تبدیل ہو گئے۔

پہلی بار ان ویران گھروں کو دیکھ کر کسی انگریزی ہورر فلم کے پراسرار مقام کا خیال آتا ہے۔

کراچی سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ماہی گیروں کی دوسری بڑی بستی ہے، جسے ہم مبارک ولیج کے نام سے جانتے ہیں ۔

مبارک ولیج کی تاریخ تو کافی پرانی ہے۔ نام کی وجہ تسمیہ تو نہیں معلوم، البتہ یہیں پر انگریزوں کا ایک بنگلہ ہوا کرتا تھا، اسی وجہ سے یہ علاقہ بنگلو کے نام سے بھی مشہورہے۔

جب کہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں برٹش امپائرکے افسران یہاں تعینات تھے۔ شاید انہوں نے ولیج کا نام اس میں اضافہ کردیا ہو۔

خیر یہ نام جو بھی ہو لیکن یہاں کی خوبصورتی، حسین اور دلکش نظاروں سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا۔
  
مبارک ولیج کی سرحدیں گڈانی بلوچستان سے ملتی ہیں۔ اگر بات کی جائے یہاں کے حسین نظاروں کی تو یہاں سنہری چٹانوں اور نیلگوں شفاف پانی کے انوکھے امتزاج کے گھیرے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔

کراچی کی سب سے قدیم اور پرانی ساحلی بستی مبارک ولیج کی آبادی تقریبا چار ہزار نفوس پرمشتمل ہے اور اس کے مکین پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ شہرکے پڑوس میں آباد ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سےمحروم ہیں۔

یہ بستی زندگی کا بنیادی جزو سمجھی جانے والی سہولیت یعنی بجلی اور پانی سے یکسر محروم ہے اور سمندر کنارے آباد مقامی افراد کی ضروریاتِ زندگی کا دارو مدار دور دراز واقع گنتی کے چند میٹھے پانی کے کنووں پر ہے۔
   
بیشتر ماہی گیروں کے روزگار کا انحصار چھوٹی کشتیوں پر ہے، جنھیں روایتی طریقے سے تیار کیا جاتا ہے اور وہ طوفانی موسم میں سفر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ان سے مضبوط کرنٹ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں یہ ماہی گیر مون سون کے دوران اپنی سرگرمیاں معطل کردیتے ہیں اور اپنے علاقے کے قریب واقع گراؤنڈ میں فٹبال میچز کھیل کر اپنا وقت گزارنے لگتے ہیں۔

یہاں کے رہائشیوں کے پاس کچھ نہیں، مگر پھر بھی یہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔کتے ساحل پر کھیل رہے ہوتے ہیں، پرجوش بچے ارگرد بھاگ رہے ہوتے ہیں اس مقام کی ہر چیز ہی حیرت میں مبتلا کردینے والی ہے۔

Comments

You May Like

You May Like

WhatsApp

Archive

Show more